تلنگانہ یونیورسٹی نظام آباد میں اردو فیسٹیول۔ عابد رسول خاں‘ پروفیسر اکبر علی خاں‘ ایس اے شکور و دیگر کا خطاب
نظام آباد۔ 24۔ دسمبر (اعتماد نیوز) صدرنشین ریاستی اقلیتی کمیشن عابد رسول خاں نے کہا کہ اردو زبان کی ترقی و ترویج‘ دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے عمل آوری اور نئی نسل کو اردو ذریعہ تعلیم کی سمت راغب کرنے وسیع پیمانے پر مذاکرات اور منصوبہ بند طریقہ پر حکومت سے نمائندگی کی ضرورت ہے۔ اردو اسکول کے قیام‘ زبان کی ترقی کے خصوص میں ریاستی اقلیتی کمیشن نے 12 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو ریاست کے تمام اضلاع کا دورہ کرتے ہوئے رپورٹ پیش کرے گی۔ تلنگانہ یونیورسٹی شعبہ اردو کے زیر اہتمام دو روزہ اردو فیسٹیول کی افتتاحی تقریب کا یونیورسٹی کے سمینار ہال کمپیوٹر سائنس اینڈ انجینئرنگ بلڈنگ میں انعقاد عمل میں آیا۔ جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے صدرنشین ریاستی اقلیتی کمیشن عابد رسول خاں نے شرکت کی اور کہا کہ ریاست میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہونے کے باوجود سرکاری محکمہ جات میں چلن ندارد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کی ترقی اردو اسکولوں کے قیام میں مضمر ہے۔ انہوں نے اظہار تاسف کیا کہ پندرہ نکاتی پروگرام کے تحت خطیر فنڈس موجود ہیں تاہم ضلع انتظامیہ کی جانب سے اردو میڈیم اسکولوں کی ترقی‘ انفراسٹرکچر کی فراہمی پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ عابد رسول خاں نے کہا کہ اردو ملک کی زبان ہے کسی خاص طبقہ‘ مذہب سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ مسابقتی امتحانات‘ سیول سرویسس امتحانات کو اردو زبان میں تحریر کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ گذشتہ 60 سال سے اردو زبان کی ترقی کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔ کئی اضلاع میں اردو میڈیم اسکولس میں اساتذہ اور انفراسٹرکچر کی کمی سے اسکولس بند ہورہے ہیں اور بچے ترک تعلیم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو کی ترقی‘ اسکولوں کے قیام‘ اردو درسی کتب کی اشاعت کے لئے اردو اکیڈیمی کے بجٹ کو 300 کروڑ تک کرنے حکومتی سطح پر نمائندگی کی جائے گی۔ پروفیسر محمد اکبر علی خاں
وائس چانسلر تلنگانہ یونیورسٹی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ اقلیتی طبقہ کے تعلیمی‘ سماجی‘ معاشی اور اقتصادی مسائل کے حل کے لئے 21 ویں صدی کے چیلنجس کو قبول کرنا ہوگا۔ انفارمیشن ٹکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے آگے آنا ہوگا۔ انہوں نے قومی کونسل برائے فروغ اردو کے تحت مرکزی وزراء کپل سبل اور پلم راجو کی جانب سے اردو زبان کے فروغ اور ترقی و ترویج کے لئے سافٹ ویر کی تیاری کو عصر حاضر کی ضرورت اور قابل ستائش اقدام قرار دیا۔ پروفیسر محمد اکبر علی خاں نے عصر حاضر میں اردو اساتذہ کے گرتے معیار پر اظہار تاسف کیا۔ انہوں نے کہا کہ قانون حق تعلیم کے وضع کرنے کے باوجود تعلیم سے دوری سماج‘ ملک کے لئے لمحہ فکر ہے۔ پروفیسر ایس اے شکور ڈائرکٹر‘ سکریٹری ریاستی اردو اکیڈیمی نے کہا کہ اردو فیسٹیول کا تلنگانہ یونیورسٹی میں انعقاد تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی و ریاستی حکومتوں کی جانب سے اردو زبان کے فروغ و ترقی کے لئے مختلف اسکیمات کو متعارف کروایا جارہا ہے۔ اردو کے اساتذہ‘ شعراء‘ ادباء‘ محققین‘ اسکالرس زبان کی ترقی کے لئے کام کرنے اور اردو کے ساتھ روا کی جانے والی نا انصافیوں کے تدارک کے لئے متحدہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر ایس اے شکو رنے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اردو میڈیم سے تعلیم غریب طلبہ حاصل کررہے ہیں۔ اردو اسکولوں میں اساتذہ کی کمی‘ انفراسٹرکچر کا فقدان‘ سرکاری سطح پر عدم تعاون زبان کو زوال کی طرف لے جارہا ہے۔ اردو اکیڈیمی کے تحت حکومت نے اردو اوپن اسکولوں کا قیام عمل میں لایا ہے۔ انفراسٹرکچر کی سہولت کے لئے اس سال 25 کروڑ کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ اردو میڈیم اسکولوں سے بڑے پیمانے پر طلبہ ترک تعلیم کررہے ہیں جبکہ اردو میڈیم اسکولوں کے نتائج بھی کمزور ہیں۔ کناڈا کے ممتاز محقق ادیب نقاد و دانشور ڈاکٹر سید تقی عابدی نے ’’فیض شناسی‘‘ کے عنوان پر توسیعی لکچر دیا اور کہا کہ فیض احمد فیض کے کلام میں احساس کی شدت‘ جذبہ کا خلوص‘ عمل کرنے کی حسرت نہیں بلکہ عمل کرنے کا عزم تھا۔